پہلا قدم (گھر سے رزق حلال)
رزق حلال کی پاکیزگی کا خیال ہمیں گھر سے پیدا کرنا چایئے۔جیسے ہی جس عمر میں بھی ہمیں رزق حلال کا درس ملے۔ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چایئے۔ہمیں اپنے کھانے،پینے،پہننے ،اوڑھنے،رہنے کے بارے میں خیال کرنا چاہیے۔کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام؟ نابالغ کو اگر(حرام رزق)کا پتہ چلے تو وہ اپنے کمائی کرنے والے (والد،بھائی،ولی)جو بھی ہے۔اس سے احسن طریقے سے اس کے متعلق اللہ کے احکام کو پہنچائے۔اور اگر وہ نہیں سنتے تو بلوغت میں آنے کے بعد سب سے پہلے اپنا رزق الگ کرے۔کوئی کام کرے تا کہ گھر والوں کو احساس ہو کہ ایسے رزق سے کوئی محبت نہیں رکھتا۔ ہمارے والدین،بھائیوں ،ماؤں،بہنوں بچوں سب کو خیال کرنا چاہیے۔کہ آیا جو ہمارا ولی جو رزق ہم تک لا رہا ہے۔وہ رزق حلال ہے؟اور کیسے لا رہا ہے؟اس کے ذرائع حلال ہیں؟اگر ایک شخص اپنی تنخواہ سے کہیں بڑھ کر گھر لا رہا ہے۔خرچ کر رہا ہے۔تو یہ سوال ذہن میں لانا چاہیے۔اور پوچھنا چائیے۔کہ آپ کا پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟لیکن اگر ہم جائز اور ناجائز کا فرق نہ کریں۔اور بس اس غرض رکھیں کہ پیسہ آرہا ہے۔تو ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔کہ ایک دوسرے کو اپنے ہاتھ سے جانتے ہوئے جہنم کی آگ میں دھکیل رہے ہیں۔جس طرح کسی مسلمان کا دل حرام گوشت،سور،کتے ،گدھے کا کھانے کا نہیں کرتا۔اسی طرح حرام مال میں بھی ایسی ہی تاثیر ہے۔بظاہر آپ حلال چیز کھا رہے ہیں۔لیکن اگر کسی کی حق تلفی،رشوت،کم ناپ تول،چوری کے پیسے سے آپ کھا رہے ہیں۔تو وہ بے برکت،ناپاک اور آپکی رگوں میں داخل ہو کر نہ صرف آپکو اخلاقی طور پر مسخ کرتا ہے۔آپ میں رحم دلی،حق اور نا حق کی پہچان،بے حیائی،سرد مہری،بے سکونی پیدا کرتا ہے۔بلکہ اس سے جو آپ کے بدن کی نشوونما ہوتی ہے۔جو گوشت چڑھتا ہے۔اللہ اسکو جہنم کیآگ کا حقدار کہتا ہے۔مشکوتہ(241)۔بخاری ۔ میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایالو گوں پر اک زمانہ آئے گا کہ آدمی اس کی قطعاََ پرواہ نہیں کرے گا۔کہ وہ حلال کھا رہا ہے۔یا حرام کھا رہا ہے۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا خاندان ایسے زمانے اور لوگوں کی پیشگوئی میں آئے۔گھر ،اولاد انسان سکون کے لیے بناتا ہے۔اور صحت کی دعا اور کوشش کرتا ہے۔لیکن اگر ساتھ حرام کی ملاوٹ لے آئے تو بے سکونی،بے چینی بھی ساتھ لاتا ہے۔یہ دنیا میں علامات ہیں۔آخرت میں جہنم کی آگ ہے۔ہمیں اپنے ولی کو ایسے کاروبارشراب،جوا،سودی کاروبار،منشیات،اور جن کے متعلق اسلام نے کھلے الفاظ میں روکا ہے۔اور پھر اس سے حاصل ہونے والی کمائی نہ صرف اللہ کی نافرمانی بلکہ اپنی تباہی ہے۔
انسان کی فطرت ہے۔کہ اسے اچھا گھر ،اچھی گاڑی،اچھا کھانا،اچھا لباس پہننا اچھا لگتا ہے۔قانون فطرت بھی حلال ذرائع سے اسے حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔لیکن اگر ہم حرام طریقے سے اسے حاصل کرنا چاہیں۔تو ایسے یہ ہمیں مل تو جائیں گے۔لیکن عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس نے دس درہم کا کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا۔تو اللہ اسکی نماز قبول نہیں کرے گا۔جب تک اس کے جسم پر وہ کپڑا باقی ہے۔پھر ابن عمرؓ اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں داخل کر کے فرمایا کہ میرے یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں۔’’اگر رسول اللہ ﷺ کہ یہ فرماتے نہ سنا ہو‘‘ ۔ (شعب الاایمان)
اللہ فرماتا ہے۔’’تمھارے لیے تمھارا مال ا ور اولاد فتنہ ہیں ۔اگر ہم حلال کمائیں اور شاکر رہیں۔اور اولاد کو اچھی تربیت اور حقوق العباد اور حقوق اللہ کا پابند بنائیں تو یہی ہماری بخشش کا ذریعہ ہیں۔اور اگر حرام رزق اور حرام نسلوں کو پروان چڑھائیں تو یہ فتنہ ہمیں لے ڈوبے گا۔حضورﷺ نے فرمایا ’’مال کا حرص اگر آجائے ۔اگر دو وادی بھر بھی سونا ہو تو آدم کی اولاد تیسری وادی کی تلاش میں نکلے گی‘‘ ۔پیسہ ضروت ہے۔لیکن حرص میں آ کر حلال اور حرام کی پہچان اس عارضی دنیا اور ناسمجھ لوگوں کی نظر میں تو ہمیں بڑا دکھائے گی لیکن آخرت میں جہنم کی کسی گہرائی کا سبب بنے گی۔لیکن یہ سوچ ان پر پہ ہے جو آخرت اور حساب کتاب پر یقین رکھتے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں رزق حلال کھانے اور کھلانے کی توفیق دے ۔اور محنت ،تقویٰ،گناہ سے توبہ سے رزق بڑھانے کا راستہ دکھائے۔آمین
ذوالفقار احمد عارشؔ
http://www.bvalleynews.com
#rizqehalal
#رزق حلال
ذوالفقار احمد عارشؔ
Monday, 17 April 2017
رزقِ حلال عین عبادت ہے
رزقِ حلال عین عبادت ہے
اللہ تعالیٰ سورت ہود(آیت6)میں ارشاد فرماتا ہے۔’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے (مگر یہ )کہ اس کا رزق اللہ(کے ذمہ کرم) پر ہے۔سورت شوریٰ آیت 12 میں اللہ فرماتا ہے۔’’اسی کے ہاتھ میں ہیں آسمان اور زمین کی کنجیاں وہ جس کے لیے چاہتا ہے۔،رزق پھیلا دیتا ہے۔اور جس کے لیے چاہے ناپ دیتا ہے۔وہ ہر ایک چیز کی خبر رکھتا ہے۔‘‘ درج بالا آیات سے واضح ہے۔کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔،روزی کمانادراصل انسانی زندگی کی ضروریات سے ہے۔شرعاََ و عقلاََ ہم پر واجب ہے۔کہ ہم اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل اور اصلاح کے لیے’’حصول رزق ’’رزق حلال ‘‘ کی کوشش کریں۔اللہ نے کمائی کو جینے کا طریقہ بتایا ہے۔ حدیث نبوی ؐ ہے۔’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘۔(بخاری.(1429اور یہ تبھی ممکن ہے۔کہ آپ کمانے والے ہوں۔قیامت کے دن عمرکے گزارنے،علم پر عمل کے علاوہ جو سوال پوچھے جائیں گے ان میں سے 40%سوال کمائی کے اوپر ہیں’’کہ کہاں سے کمایا؟اور کہاں پہ لگایا؟‘‘ سورت جمعہ میں اللہ کا ارشاد ہے۔’’زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا رزق تلاش کرو‘‘۔سورت النسأ میں االلہ نے فرمایا اے ایمان والو’’ تم آپس میں ایک دوسرے کامال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔لیکن یہ لین دین ہو آپس کی خوشی سے‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’ اللہ پاک ہے اور صرف پاک مال کو پسند کرتا ہے(صحیح مسلم)۔عبداللہ بن مسعودؓ سے راوایت ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’حلال روزی کی طلب قرض کے بعد قرض ہے‘‘(شعب الایمان للبیحقی ) رزق حلال وہ روزی کمانے کا پاک اور جائز طریقہ ہے۔جو کہ محنت اور ہاتھ کی کمائی ہے۔اور ایسا ذریعہ ہے۔جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔اور جس سے نہ اللہ کے احکام اور نہ کسی انسان کے حقوق کی حق تلفی ہوتی ہے۔ہاتھوں سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔کیوں کہ وہ اپنی محنت سے کام کر رہا ہوتا ہے۔اللہ ہمارا خالق ہے۔اور وہ ہمارے برے اور اچھے کو بہتر جانتا ہے۔رازق وہ ہے۔رزق کا راستہ اس نے بتا دیا ہے۔اور حلال اور حرام کی تمیز بھی سکھا دی ہے۔ہم اپنے لیے کیا پسند کرتے ہیں یہ ہمارا اختیار ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ کی لالچ میں اپنے آپ کو آلودہ کر لیں۔یا صرف طیب،مطہرہ رزق کا چناؤ کریں یہ ہم پر ہے۔ کم عمری سے اور طالبعلمی کو دور سے ہم یہ آگاہی حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔لیکن جیسے ہی عملی زندگی(کاروبار،جاب) میں قدم رکھیں اور پھسل جائیں۔تو آگاہی کے ساتھ سرکشی جہنم تک لے جاتی ہے۔۔گناہوں کو معاف کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔وہ غفور ورحیم ہے۔لیکن جیسے زبان سے نکلی بات واپس نہیںآتی۔اسی طرح گناہ کا داغ آپ کے کردار کو دوبارہ صحیح نہیں کر سکتا۔ صحابہ اکرامؓ کبھی کبھی جن باتوں پر شک ہوتا تھا۔حلال کام میں بھی مبالغہ نہیں کرتے تھے۔کہ کہیں حرام میں داخل نہ ہو جائیں۔نعمان بن بشیرؓ نے بیان کیا۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ۔اور ان دونوں کے بیچ کچھ مشتبہ امور ہیں۔جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔جو شخص مشتبہ امور سے بچا۔اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔اور جو مشبہ امور میں پڑا۔وہ حرام میں پڑگیا۔جیسے چرواہا کسی کی چراہاگاہ کے قریب بکریاں چرائے۔تو خطرہ ہے کہ بکریاں اس چراہگاہ میں چرنے لگیں۔اور خبردار رہواللہ کی چراہگاہ اس کے محارم ہیں۔سن رکھو کہ بے شک جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔جب وہ صحیح ہو تو سارا بدن صحیح رہے گا۔اور جب وہ فاسد ہو جائے۔تو سارا بدن خراب ہو جائے(بخاری)۔ حرام رزق کھانے سے دل تنگ ہو جاتا ہے۔عمل صالح میں اس کا مال قبول نہیں ہوتا۔دعائیں بھی قبول نہیں ہوتی۔زندگی ،وقت ،اولاد سے برکت اٹھ جاتی ہے۔صدقات،فطرات،حج،بھوکے کو کھانا کھلانے کا اجر نہیں ملتا۔اللہ اسکا شکر قبول نہیں کرتا۔ نبی تاجدارحضرت محمدﷺ نے فرمایا بدترین ہے وہ مال جس کی کمائی کا گناہ تیرے سر ہو۔اور تو اسے خرچ کریاور اس کے اجر سے محروم ہو(صحیح مسلم .( پیارے نبیؐ نے فرمایا۔’’ ایک شخص دور کا سفر کر کے آئے۔اور اس کی حالت پراگندہ ہو۔گرد و غبار سے اٹا ہو۔اور وہ پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔اور یا رب یارب پکارے لیکن اسکا کھانا پیناحرام،لباس حرام،اور اس کی گوشت کی پرورش حرام سے ہو۔اللہ اسکی دعا کیسے قبول کرئے‘‘۔(صحیح مسلم) ابو بکرصدیقؓ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’حرام سے پرورش پانے والاگوشت جنت میں نہیں جائے گا۔(شعب الایمان) جابرؓ نے بیان کیا کہ حضورؐ نے فرمایا’’ اور حرام سے پلنے والا گوشت زیادہ مستحق ہے کہ اسے آگ میں جلایا جائے یعنی دوزخ میں ڈالا جائے‘‘(احمد وادرمی)۔ابوامامہؓ نے بیان کیا حضرت محمد ؐ نے فرمایا جس نے قسم کھائی اور کسی مسلمان کا حق ماراآپؐ سے صحابی نے پوچھا اگر تھوڑا سا حق مار لیں۔تو آپ ؐنے فرمایاتو جوابدہ ہے۔اس پر جنت حرام ہے حالانکہ ایک پیلو کی لکڑی کے برابربھی اسکا حق کیا کیوں نہ مارا ہو۔(*آپ پیلو کا سائز ایک بالشت یا سکی قیمت دس یا بیس روپے ہو گی۔اسقدر سختی ہے۔)۔عدی بن زبیرؓ سے روایت ہے۔حضور ؐ نے فرمایا جس کے ذمے کسی کام کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس نے ایک ٹگے کے برابر غبن کیا۔تو روز قیامت جوابدہ ہونا پڑے گا۔ خلفائے راشدین نے رزق حلال کے حکم کو خود پر اس سختی سے لاگو رکھا۔کہ صحیح بخاری (3842) میں ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکرؓ کے غلام ان کے پاس کچھ گوشت لیکر آئے۔اور ابو بکرؓنے وہ گوشت کھا لیا۔غلام نے بعد میں کہا۔ابو بکرؓ تم جانتے ہو یہ کہاں سے آیا تھا۔آپ نے فرمایا۔ نہیں! غلام نے کہادور جہالت میں میں نے کہانت (جادو،ٹونہ)کی تھی۔حالانکہ مجھے آتی نہیں تھی۔بس ویسے ہی کر دی۔تو اس شخص نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔آج وہ لے کر آیا تھا۔جب ابو بکر صدیقؓ نے سنا تو اپنی انگلی اس قدر منہ میں ڈالی کہ قے کر دی۔قے کر کے ابو بکرؓ نے کہا۔میں اب مطمئن ہوں۔اور اگر میں اس کو نکالتے مر جاتاتو مرنا پسند کرتااسکو ہضم کرنا پسند نہ کرتا۔حیثیت اولیا میں اضافہ ہے۔کہ ’’اے اللہ میں بری ہوں جو میری رگوں نے جذب کیا۔اور میں بری ہوں جو میری آنت نے پسِ دیا۔اندازہ لگا لیں کہ کس قدر احتیاط ہے۔ موطہٰ امام مالک میں ہے کہ عمر بن خطابؓ نے ایک بار دودھ پیا۔دودھ بہت لذیذ تھا۔پوچھا کہاں سے لایا۔جس شخص نے لایا۔اس نے کہا صدقات کے اونٹ تھے۔پانی پی رہے تھے۔میں نے دیکھا ایک اونٹنی کے تھنوں میں کافی دودھ ہے۔دوھ لیا۔آپ نے اسی واقت قے کی۔اس کو نکال دیا۔اگرچے دودھ حلال ہے۔مگر عمر بن خطابؓ پر نہیں۔صداقات کا مال تھے۔غریبوں اور مسکینوں کاحق تھا ۔ علما ٗ فرماتے ہیں کہ اگر ستونوں کے جیسے بھی کھڑے ہو کرعبادت کرو۔تو یہ جان لو۔کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔جب تک تمہیں یہ پتہ نہ ہو۔کہ تمھارے پیٹ میں کیا ہے؟ ایک دفعہ ایک بادشاہ کے ظلم اور حرامکاری کی وجہ سے لوگوں نے اسے بد دعائیں دینی شروع کر دی ۔اس نے سب کو دعوت پر بلایا۔جب کھا چکے تو کہا اب تمھاری بددعائیں مجھ پر اثر نہیں کریں گی۔کیوں کہ جو کھایا یہ حرام کا مال تھا۔ صحیح مسلم ۔مسلم بخاری میں ہے۔نبی آخرزماںؐ نے فرمایا۔جب زانی زنا کرتا ہے۔تو وہ مومن نہیں رہتا۔جب کوئی مال لوٹنے والا مال لوٹ رہا ہوتا ہے۔تو وہ مومن نہیں رہتا۔جب کوئی خیانت کرنے والا خیانت کرتا ہے۔تو وہ مومن نہیں رہتا۔اور دو بار فرمایا بچ جاؤ بچ جاؤ۔( *مسلمان رہتا ہے مومن نہیں رہتا) کسی نیک عورت نے اپنے شوہر کو خط تحریر کیا۔’’اے اللہ کے بندے ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہناکیوں کہ ہم بھوک برداشت کر سکتے ہیں۔مگر جہنم کی آگ برداشت نہیں کر سکتے۔ہم آج کل تو اول خود کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔دوزخ کی آگ میں خود کو دھکیل رہے ہیں۔پھر اپنے ہمراہ اپنے بیوی بچوں کو بھی دھکیل رہے ہیں۔کچھ عورتیں اور بچے بھی اپنے شوہر ،والد کو جھوٹے سٹیٹس کے چکر میں جہنم کی آگ میں دھکیل رہی ہیں۔حالانکہ زیادہ تر زندگی ہی میں اولاد کی نافرمانی کا سامنا دیکھ لیتے ہیں۔ہماری پریشانی ،ناگہانی آفتیں،بے اطمینانی،نفاق اسی سبب سے ہے۔ایسا شخص سکون قلب سے محروم ہو جاتا ہے۔اور آخرت کے معاملے میں جب انسان کے جسم کا ہر عضو اس کے اعمال کی گواہی دے گا۔تو اولاد اور بیوی تو چیخ چیخ کر کہیں گے۔ہم کو حرام کھلا کر یہاں تک لانے والا یہی ہے۔ حرام کھانے والی اولاد کا اگرچے کوئی قصور نہیں ہوتاالبتہ وہ اس مال کی بابت جانتے نہ ہوں۔لیکن اگر آپکی پرورش حرام سے ہوئی ہے۔تو آپکی دعا قبول نہیں ہوگی۔اس لیے حرام ایک بار زندگی میں داخل ہو جائے۔تو بہت مشکل سے نکلتا ہے۔لمحہ فکریہ ہے۔کہ ہم کلمہ طیبہ پر یقین رکھتے ہیں۔۔آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ہم اپنی صحت کے ڈر سے حلال چیز چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن آگ کے ڈر سے حرام نہیں۔ حرام سے صرف فرد نہیں معاشرہ ڈوب جاتا ہے۔پریشانی ،روزی کی برکتیں،قتل و عام،ایک دوسرے کو ناپسند یہ حرام کے لائے ہوئے فتنے ہیں۔آجکل ہم اتنے سرد مہر اور بے حس ہو چکے ہیں۔کہ حلال کمائی والے پر ہنستے ہیں کہ تو نے کیا بنا لیا۔ہمیں دیکھو کہاں پہنچ گئے۔حالانکہ اگر جوتی گھانٹنے والا بھی حلال کما رہا ہے۔تو وہ ہماری نظر میں چھوٹا ہو سکتا ہے مگر اللہ کی بارگاہ میں حرام سے لیے ہوئے۔ہزاروں روپے کے جوتے پہنے شخص سے اٖفضل ہے۔اور کوئی اگر لوگوں سے رشوت لے۔شراب بیچے،کم تولے،اپنے مقررہ وقت سے کم کام کرے،بجلی کے بلوں میں گھپلا کرے۔نوکریاں پیسے لے کر بیچے اور معاشرہ یہ کہے اس پر اللہ کا بڑا کرم ہے۔تو یہ مسلمان معاشرے کی سوچ نہیں ہوسکتی۔اور نہ حلال کا لقمہ کھانے والا اس کو صحیح قرار دے سکتا ہے۔اور اگر ہم پوری زندگی اس گمان پر گناہ،حرام رزق کماتے رہیں کہ آخر میں ،بڑھاپے میں،صدقات دے کر۔لوگوں کے ساتھ کی ہوئی۔حق تلفی کا ازالہ کر لیں گے۔تو ایسے لوگوں کے بارے میں عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ حضورؐ نے فرمایا’’ جو بندہ حرام مال کما کر اس میں سے کچھ صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول نہیں ہو گا۔اور اس مال میں سے خیرات کرنے میں اس کے لیے کوئی برکت نہیں ہوگی۔اور جو حرام مال چھوڑے گا۔اور وہ اسے جہنم میں لے جانے والا ہو گا۔اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے۔بے شک ناپاکی ناپاکی کو دور نہیں کرتی۔(مسند امام احمد) اللہ غفورورحیم ہے۔لیکن جہاں حق تلفی ہو۔اللہ اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے۔اللہ ہمیں اس کھلی روشنی کو جاننے کہ بعد ہدایت دے۔اور رزق حلال کمانے،کھانے،کھلانے کی توفیق دے۔اور اللہ ہمیں پیسہ،صلاحیت و قابلیت،وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے۔جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے۔جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے۔زیادہ کرتا ہے۔وہ بڑی کشائش والا،اور سب کچھ جاننے والاہے۔(سورت بقرہ۔241)۔ امید ہے کہ ہم آج اس عہد سے زندگی گذاریں گے کہ جب رازق اللہ تعالیٰ ہے۔اور اس نے رزق حلال کو ہمارے لیے بہتر جاناتو ہم اپنی زندگی کسب حلال پر گذاریں گے۔آمین
طالبِ دعا
ذوالفقار احمد عارشؔ
http://www.bvalleynews.com
اللہ تعالیٰ سورت ہود(آیت6)میں ارشاد فرماتا ہے۔’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے (مگر یہ )کہ اس کا رزق اللہ(کے ذمہ کرم) پر ہے۔سورت شوریٰ آیت 12 میں اللہ فرماتا ہے۔’’اسی کے ہاتھ میں ہیں آسمان اور زمین کی کنجیاں وہ جس کے لیے چاہتا ہے۔،رزق پھیلا دیتا ہے۔اور جس کے لیے چاہے ناپ دیتا ہے۔وہ ہر ایک چیز کی خبر رکھتا ہے۔‘‘ درج بالا آیات سے واضح ہے۔کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔،روزی کمانادراصل انسانی زندگی کی ضروریات سے ہے۔شرعاََ و عقلاََ ہم پر واجب ہے۔کہ ہم اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل اور اصلاح کے لیے’’حصول رزق ’’رزق حلال ‘‘ کی کوشش کریں۔اللہ نے کمائی کو جینے کا طریقہ بتایا ہے۔ حدیث نبوی ؐ ہے۔’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘۔(بخاری.(1429اور یہ تبھی ممکن ہے۔کہ آپ کمانے والے ہوں۔قیامت کے دن عمرکے گزارنے،علم پر عمل کے علاوہ جو سوال پوچھے جائیں گے ان میں سے 40%سوال کمائی کے اوپر ہیں’’کہ کہاں سے کمایا؟اور کہاں پہ لگایا؟‘‘ سورت جمعہ میں اللہ کا ارشاد ہے۔’’زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا رزق تلاش کرو‘‘۔سورت النسأ میں االلہ نے فرمایا اے ایمان والو’’ تم آپس میں ایک دوسرے کامال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔لیکن یہ لین دین ہو آپس کی خوشی سے‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’ اللہ پاک ہے اور صرف پاک مال کو پسند کرتا ہے(صحیح مسلم)۔عبداللہ بن مسعودؓ سے راوایت ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’حلال روزی کی طلب قرض کے بعد قرض ہے‘‘(شعب الایمان للبیحقی ) رزق حلال وہ روزی کمانے کا پاک اور جائز طریقہ ہے۔جو کہ محنت اور ہاتھ کی کمائی ہے۔اور ایسا ذریعہ ہے۔جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔اور جس سے نہ اللہ کے احکام اور نہ کسی انسان کے حقوق کی حق تلفی ہوتی ہے۔ہاتھوں سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔کیوں کہ وہ اپنی محنت سے کام کر رہا ہوتا ہے۔اللہ ہمارا خالق ہے۔اور وہ ہمارے برے اور اچھے کو بہتر جانتا ہے۔رازق وہ ہے۔رزق کا راستہ اس نے بتا دیا ہے۔اور حلال اور حرام کی تمیز بھی سکھا دی ہے۔ہم اپنے لیے کیا پسند کرتے ہیں یہ ہمارا اختیار ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ کی لالچ میں اپنے آپ کو آلودہ کر لیں۔یا صرف طیب،مطہرہ رزق کا چناؤ کریں یہ ہم پر ہے۔ کم عمری سے اور طالبعلمی کو دور سے ہم یہ آگاہی حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔لیکن جیسے ہی عملی زندگی(کاروبار،جاب) میں قدم رکھیں اور پھسل جائیں۔تو آگاہی کے ساتھ سرکشی جہنم تک لے جاتی ہے۔۔گناہوں کو معاف کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔وہ غفور ورحیم ہے۔لیکن جیسے زبان سے نکلی بات واپس نہیںآتی۔اسی طرح گناہ کا داغ آپ کے کردار کو دوبارہ صحیح نہیں کر سکتا۔ صحابہ اکرامؓ کبھی کبھی جن باتوں پر شک ہوتا تھا۔حلال کام میں بھی مبالغہ نہیں کرتے تھے۔کہ کہیں حرام میں داخل نہ ہو جائیں۔نعمان بن بشیرؓ نے بیان کیا۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ۔اور ان دونوں کے بیچ کچھ مشتبہ امور ہیں۔جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔جو شخص مشتبہ امور سے بچا۔اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔اور جو مشبہ امور میں پڑا۔وہ حرام میں پڑگیا۔جیسے چرواہا کسی کی چراہاگاہ کے قریب بکریاں چرائے۔تو خطرہ ہے کہ بکریاں اس چراہگاہ میں چرنے لگیں۔اور خبردار رہواللہ کی چراہگاہ اس کے محارم ہیں۔سن رکھو کہ بے شک جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔جب وہ صحیح ہو تو سارا بدن صحیح رہے گا۔اور جب وہ فاسد ہو جائے۔تو سارا بدن خراب ہو جائے(بخاری)۔ حرام رزق کھانے سے دل تنگ ہو جاتا ہے۔عمل صالح میں اس کا مال قبول نہیں ہوتا۔دعائیں بھی قبول نہیں ہوتی۔زندگی ،وقت ،اولاد سے برکت اٹھ جاتی ہے۔صدقات،فطرات،حج،بھوکے کو کھانا کھلانے کا اجر نہیں ملتا۔اللہ اسکا شکر قبول نہیں کرتا۔ نبی تاجدارحضرت محمدﷺ نے فرمایا بدترین ہے وہ مال جس کی کمائی کا گناہ تیرے سر ہو۔اور تو اسے خرچ کریاور اس کے اجر سے محروم ہو(صحیح مسلم .( پیارے نبیؐ نے فرمایا۔’’ ایک شخص دور کا سفر کر کے آئے۔اور اس کی حالت پراگندہ ہو۔گرد و غبار سے اٹا ہو۔اور وہ پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔اور یا رب یارب پکارے لیکن اسکا کھانا پیناحرام،لباس حرام،اور اس کی گوشت کی پرورش حرام سے ہو۔اللہ اسکی دعا کیسے قبول کرئے‘‘۔(صحیح مسلم) ابو بکرصدیقؓ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’حرام سے پرورش پانے والاگوشت جنت میں نہیں جائے گا۔(شعب الایمان) جابرؓ نے بیان کیا کہ حضورؐ نے فرمایا’’ اور حرام سے پلنے والا گوشت زیادہ مستحق ہے کہ اسے آگ میں جلایا جائے یعنی دوزخ میں ڈالا جائے‘‘(احمد وادرمی)۔ابوامامہؓ نے بیان کیا حضرت محمد ؐ نے فرمایا جس نے قسم کھائی اور کسی مسلمان کا حق ماراآپؐ سے صحابی نے پوچھا اگر تھوڑا سا حق مار لیں۔تو آپ ؐنے فرمایاتو جوابدہ ہے۔اس پر جنت حرام ہے حالانکہ ایک پیلو کی لکڑی کے برابربھی اسکا حق کیا کیوں نہ مارا ہو۔(*آپ پیلو کا سائز ایک بالشت یا سکی قیمت دس یا بیس روپے ہو گی۔اسقدر سختی ہے۔)۔عدی بن زبیرؓ سے روایت ہے۔حضور ؐ نے فرمایا جس کے ذمے کسی کام کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس نے ایک ٹگے کے برابر غبن کیا۔تو روز قیامت جوابدہ ہونا پڑے گا۔ خلفائے راشدین نے رزق حلال کے حکم کو خود پر اس سختی سے لاگو رکھا۔کہ صحیح بخاری (3842) میں ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکرؓ کے غلام ان کے پاس کچھ گوشت لیکر آئے۔اور ابو بکرؓنے وہ گوشت کھا لیا۔غلام نے بعد میں کہا۔ابو بکرؓ تم جانتے ہو یہ کہاں سے آیا تھا۔آپ نے فرمایا۔ نہیں! غلام نے کہادور جہالت میں میں نے کہانت (جادو،ٹونہ)کی تھی۔حالانکہ مجھے آتی نہیں تھی۔بس ویسے ہی کر دی۔تو اس شخص نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔آج وہ لے کر آیا تھا۔جب ابو بکر صدیقؓ نے سنا تو اپنی انگلی اس قدر منہ میں ڈالی کہ قے کر دی۔قے کر کے ابو بکرؓ نے کہا۔میں اب مطمئن ہوں۔اور اگر میں اس کو نکالتے مر جاتاتو مرنا پسند کرتااسکو ہضم کرنا پسند نہ کرتا۔حیثیت اولیا میں اضافہ ہے۔کہ ’’اے اللہ میں بری ہوں جو میری رگوں نے جذب کیا۔اور میں بری ہوں جو میری آنت نے پسِ دیا۔اندازہ لگا لیں کہ کس قدر احتیاط ہے۔ موطہٰ امام مالک میں ہے کہ عمر بن خطابؓ نے ایک بار دودھ پیا۔دودھ بہت لذیذ تھا۔پوچھا کہاں سے لایا۔جس شخص نے لایا۔اس نے کہا صدقات کے اونٹ تھے۔پانی پی رہے تھے۔میں نے دیکھا ایک اونٹنی کے تھنوں میں کافی دودھ ہے۔دوھ لیا۔آپ نے اسی واقت قے کی۔اس کو نکال دیا۔اگرچے دودھ حلال ہے۔مگر عمر بن خطابؓ پر نہیں۔صداقات کا مال تھے۔غریبوں اور مسکینوں کاحق تھا ۔ علما ٗ فرماتے ہیں کہ اگر ستونوں کے جیسے بھی کھڑے ہو کرعبادت کرو۔تو یہ جان لو۔کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔جب تک تمہیں یہ پتہ نہ ہو۔کہ تمھارے پیٹ میں کیا ہے؟ ایک دفعہ ایک بادشاہ کے ظلم اور حرامکاری کی وجہ سے لوگوں نے اسے بد دعائیں دینی شروع کر دی ۔اس نے سب کو دعوت پر بلایا۔جب کھا چکے تو کہا اب تمھاری بددعائیں مجھ پر اثر نہیں کریں گی۔کیوں کہ جو کھایا یہ حرام کا مال تھا۔ صحیح مسلم ۔مسلم بخاری میں ہے۔نبی آخرزماںؐ نے فرمایا۔جب زانی زنا کرتا ہے۔تو وہ مومن نہیں رہتا۔جب کوئی مال لوٹنے والا مال لوٹ رہا ہوتا ہے۔تو وہ مومن نہیں رہتا۔جب کوئی خیانت کرنے والا خیانت کرتا ہے۔تو وہ مومن نہیں رہتا۔اور دو بار فرمایا بچ جاؤ بچ جاؤ۔( *مسلمان رہتا ہے مومن نہیں رہتا) کسی نیک عورت نے اپنے شوہر کو خط تحریر کیا۔’’اے اللہ کے بندے ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہناکیوں کہ ہم بھوک برداشت کر سکتے ہیں۔مگر جہنم کی آگ برداشت نہیں کر سکتے۔ہم آج کل تو اول خود کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔دوزخ کی آگ میں خود کو دھکیل رہے ہیں۔پھر اپنے ہمراہ اپنے بیوی بچوں کو بھی دھکیل رہے ہیں۔کچھ عورتیں اور بچے بھی اپنے شوہر ،والد کو جھوٹے سٹیٹس کے چکر میں جہنم کی آگ میں دھکیل رہی ہیں۔حالانکہ زیادہ تر زندگی ہی میں اولاد کی نافرمانی کا سامنا دیکھ لیتے ہیں۔ہماری پریشانی ،ناگہانی آفتیں،بے اطمینانی،نفاق اسی سبب سے ہے۔ایسا شخص سکون قلب سے محروم ہو جاتا ہے۔اور آخرت کے معاملے میں جب انسان کے جسم کا ہر عضو اس کے اعمال کی گواہی دے گا۔تو اولاد اور بیوی تو چیخ چیخ کر کہیں گے۔ہم کو حرام کھلا کر یہاں تک لانے والا یہی ہے۔ حرام کھانے والی اولاد کا اگرچے کوئی قصور نہیں ہوتاالبتہ وہ اس مال کی بابت جانتے نہ ہوں۔لیکن اگر آپکی پرورش حرام سے ہوئی ہے۔تو آپکی دعا قبول نہیں ہوگی۔اس لیے حرام ایک بار زندگی میں داخل ہو جائے۔تو بہت مشکل سے نکلتا ہے۔لمحہ فکریہ ہے۔کہ ہم کلمہ طیبہ پر یقین رکھتے ہیں۔۔آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ہم اپنی صحت کے ڈر سے حلال چیز چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن آگ کے ڈر سے حرام نہیں۔ حرام سے صرف فرد نہیں معاشرہ ڈوب جاتا ہے۔پریشانی ،روزی کی برکتیں،قتل و عام،ایک دوسرے کو ناپسند یہ حرام کے لائے ہوئے فتنے ہیں۔آجکل ہم اتنے سرد مہر اور بے حس ہو چکے ہیں۔کہ حلال کمائی والے پر ہنستے ہیں کہ تو نے کیا بنا لیا۔ہمیں دیکھو کہاں پہنچ گئے۔حالانکہ اگر جوتی گھانٹنے والا بھی حلال کما رہا ہے۔تو وہ ہماری نظر میں چھوٹا ہو سکتا ہے مگر اللہ کی بارگاہ میں حرام سے لیے ہوئے۔ہزاروں روپے کے جوتے پہنے شخص سے اٖفضل ہے۔اور کوئی اگر لوگوں سے رشوت لے۔شراب بیچے،کم تولے،اپنے مقررہ وقت سے کم کام کرے،بجلی کے بلوں میں گھپلا کرے۔نوکریاں پیسے لے کر بیچے اور معاشرہ یہ کہے اس پر اللہ کا بڑا کرم ہے۔تو یہ مسلمان معاشرے کی سوچ نہیں ہوسکتی۔اور نہ حلال کا لقمہ کھانے والا اس کو صحیح قرار دے سکتا ہے۔اور اگر ہم پوری زندگی اس گمان پر گناہ،حرام رزق کماتے رہیں کہ آخر میں ،بڑھاپے میں،صدقات دے کر۔لوگوں کے ساتھ کی ہوئی۔حق تلفی کا ازالہ کر لیں گے۔تو ایسے لوگوں کے بارے میں عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ حضورؐ نے فرمایا’’ جو بندہ حرام مال کما کر اس میں سے کچھ صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول نہیں ہو گا۔اور اس مال میں سے خیرات کرنے میں اس کے لیے کوئی برکت نہیں ہوگی۔اور جو حرام مال چھوڑے گا۔اور وہ اسے جہنم میں لے جانے والا ہو گا۔اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے۔بے شک ناپاکی ناپاکی کو دور نہیں کرتی۔(مسند امام احمد) اللہ غفورورحیم ہے۔لیکن جہاں حق تلفی ہو۔اللہ اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے۔اللہ ہمیں اس کھلی روشنی کو جاننے کہ بعد ہدایت دے۔اور رزق حلال کمانے،کھانے،کھلانے کی توفیق دے۔اور اللہ ہمیں پیسہ،صلاحیت و قابلیت،وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے۔جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے۔جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے۔زیادہ کرتا ہے۔وہ بڑی کشائش والا،اور سب کچھ جاننے والاہے۔(سورت بقرہ۔241)۔ امید ہے کہ ہم آج اس عہد سے زندگی گذاریں گے کہ جب رازق اللہ تعالیٰ ہے۔اور اس نے رزق حلال کو ہمارے لیے بہتر جاناتو ہم اپنی زندگی کسب حلال پر گذاریں گے۔آمین
طالبِ دعا
ذوالفقار احمد عارشؔ
http://www.bvalleynews.com
Subscribe to:
Posts (Atom)